Islamic Beliefs-عقاید اسلامی

Pure Islam-اسلام ناب

Islamic Beliefs-عقاید اسلامی

Pure Islam-اسلام ناب

حدیث ثقلین

Wednesday, 31 December 2014، 10:06 PM

حدیث ثقلین رسول اللہ(ص) کی ایک مشہور اور متواتر حدیث ہے جو فرماتے ہیں: "میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب (یعنی قرآن) اور عترت یا اہل بیت چھوڑے جارہا ہوں۔ قرآن اور اہل بیت قیام قیامت تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہونگے"۔

یہ حدیث تمام مسلمانوں کے ہاں متفق علیہ ہے اور شیعہ اور سنی کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے۔

شیعہ اس حدیث کے سہارے لزوم امامت اور ائمہ(ع) کی عصمت اور تمام زمانوں میں امامت کے دوام اور تسلسل کا ثبوت دیتے ہیں۔

متن حدیث

یہ حدیث مختلف روایات میں گوناگوں عبارتوں کے ساتھ وارد ہوئی ہے گوکہ اس کا مضمون ایک ہی ہے۔

اہل تشیع کی بنیادی چار کتابوں میں شامل اصول کافی میں یہ حدیث اس صورت میں وارد ہوئی ہے:

"...إِنِّی تَارِکٌ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، کِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَیْتِى عِتْرَتِى أَیُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّکُمْ سَتَرِدُونَ عَلَیَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُکُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَیْنِ وَالثَّقَلَانِ کِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ وَأَهْلُ بَیْتِى..."۔[1]

ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو امانتیں چھوڑے جارہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: کتاب خدا اور میری عترت جو اہل بیت علیہم السلام اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی کتاب خدا اور میرے اہل بیت۔

احمد بن شعیب نسائی نے اپنی کتاب سنن نسائی ـ جو اہل سنت کی صحاح ستہ میں سے ایک ہے ـ میں اس حدیث کو اس صورت میں نقل کرتے ہیں:

"...کَأَنِّی قَدْ دُعِیتُ فَأَجَبْتُ، إِنِّی قَدْ تَرَکْتُ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ: أَحَدُهُمَا أَکْبَرُ مِنَ الآخَرِ، کِتَابُ اللَّهِ تَعَالَى، وَعِتْرَتِی، فَانْظُرُوا کَیْفَ تَخْلُفُونِی فِیهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتَّى یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ..."
ترجمہ: گویا مجھے خالق یکتا نے بلایا ہے اور میں نے بھی یہ دعوت قبول کرلی ہے (اور میرا وقت وصال آن پہنچا ہے) میں تمہارے درمیان دو گراں بہاء امانتیں چھوڑے جارہا ہوں جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: کتاب خدا اور میری عترت ـ جو میرے اہل بیت ہی ہیں ـ پس دیکھو کہ ان کے ساتھ کیا رویہ روا رکھتے ہو کیونکہ وہ کبھی جدا جدا نہیں ہوتیں حتی کہ حوض کے کنارے مجھ سے آ ملیں۔[2]

حدیث کے مآخذ اور سند

یہ حدیث ان روایات میں سے ہے جو شیعہ اور اہل سنت کے علماء کے نزدیک مقبول ہے اور سند کے لحاظ سے اس کے صدور میں پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔[3]

سنی مآخذ

کتاب حدیث الثقلین ومقامات اہل البیت کتاب حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت[4] کے مطابق اصحاب رسول(ص) میں سے 25 افراد نے یہ حدیث نقل کی ہے۔ ان میں سے بعض صحابیوں کے نام کچھ یوں ہیں:

  1. زید بن ارقم یہ حدیث نسائی کی سنن الکبری،[5] طبرانی کی المعجم الکبیر،[6] ترمذی کی سنن،[7] حاکم نیشابوری کی مستندرک علی الصحیحین،[8] احمد بن حنبل کی مسند [9] اور دیگر کتب میں چھ واسطوں سے، زید بن ارقم کے حوالے سے نقل ہوئی ہے۔
  2. زید بن ثابت سے مسند احمد[10] اور طبرانی کی المعجم الکبیر میں۔[11]
  3. جابر بن عبدالله سے سنن (الجامع الصحیح) ترمذی،[12] اور طبرانی کی المعجم الکبیر[13] اور المعجم الاوسط’[14] میں۔
  4. حذیفة بن أسید سے طبرانی کی المعجم الکبیر میں۔[15]
  5. ابو سعید خدری سے مسند احمد میں چار مقامات پر[16] اور العقیلی کی ضعفاء الکبیر[17] میں۔
  6. امام علی(ع) کے حوالے سے دو واسطوں سے البحر الزخار (یا مسند البزاز[18] اور متقی ہندی کی کنز العمال[19] میں۔
  7. ابوذر غفاری سے دارقطنی کی المؤتلف والمختلف[20] میں۔
  8. ابوہریرہ سے کشف الاستار عن زوائد البزار[21] میں۔
  9. عبداللہ بن حنطب سے ابن اثیر کی اسد الغابہ[22] میں۔
  10. جبیر بن مطعم سے ظلال الجنہ[23] میں۔
  11. بعض صحابہ اور انصار ـ منجملہ: خزیمہ بن ثابت، سہل بن سعد، عدی بن حاتم، عقبہ بن عامر، ابو ایوب انصاری، ابو سعید الخدری، ابو شریح الخزاعی، ابو قدامہ انصاری، ابو لیلی، ابوالہیثم بن التیہان، اور بعض قریشی جنہوں نے امام علی(ع) کی درخواست پر اٹھ کر اس حدیث کو نقل کیا۔۔[24]۔[25]

کتاب غایة المرام و حجة الخصام جناب بحرانی نے یہ حدیث 39 واسطوں سے کتب اہل سنت سے نقل کی ہے۔

پاورقی حاشیے

  1. کلینی، الکافی، ج1، ص294۔
  2. نسائی، السنن الکبری، ح8148۔
  3. حدیث ثقلین کی سند - حدیث ثقلین اہل سنت کی کتابوں میں - اھل بیت کی محبت کا تقاضا: حدیث ثقلین - حدیث ثقلین پر ایک نظر-
  4. تالیف احمد ماحوزی۔
  5. نسائی، السنن الکبری، ح8148۔
  6. طبرانی، المعجم الکبیر، ج5، ص186۔
  7. ترمذی، سنن الترمذی، ح3876۔
  8. حاکم نیشابوری، المستدرک، ج3، ص110۔
  9. احمد بن‌حنبل، مسند احمد، ج4، ص371۔
  10. احمد بن‌حنبل، مسند احمد، ج5، صص183 و 189۔
  11. طبرانی، المعجم الکبیر، ج5، ص166۔
  12. ترمذی، صحیح ترمذی، ج5، ص328۔
  13. طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص66۔
  14. طبرانی، المعجم الاوسط’، ج5، ص89۔
  15. طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص180۔
  16. احمد بن‌حنبل، مسند احمد، ج3، صص13، 17، 26 و 59۔
  17. العقیلی، ضعفاء الکبیر، ج4، ص362۔
  18. البزاز، البحر الزخار، ص88، ح864۔
  19. متقی هندی، کنز العمال، ج14، ص77، ح37981۔
  20. دارقطنی، المؤتلف و المختلف، ج2، ص1046۔
  21. الهیثمی، کشف الاستار، ج3، ص223، ح2617۔
  22. ابن‌اثیر، اسد الغابة، ج3، ص219، ش2907۔
  23. البانی، ظلال الجنة، ح1465۔
  24. قندوزی حنفی، ینابیع الموده، ج1، صص106-107۔
  25. ابن حجر عسقلانی، الاصابه، ج7، صص274-245۔
موافقین ۰ مخالفین ۰ 14/12/31

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

Comment

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
تجدید کد امنیتی